میرے غم کی کہانی سنا کر گیا

میرے غم کی کہانی سنا کر گیا

میرے غم کی کہانی سنا کر گیا

ساری محفل کو ظالم رلا کر گیا

شاخِ گْل کو مگر یاد کیا آ ئے گا

اک پرندہ جو خوں میں نہا کر گیا

میں نہ مجنوں نہ مجذوبِ خانہ خراب

عشق بیٹھے بٹھائے یہ کیا کر گا

کون آیا تھا میرے خیالوں میں شب

گُل محبت کے دل میں کِھلا کر گیا

میری نیندیں چرا کر نہ جانے کہاں

میرے سینے میں طوفاں اٹھا کر گیا

زندگی چار دن کی ملی تھی اُسے

چار ہی دن میں فتنہ بپا کر گیا

دیکھ لو یہ جنازہ وہی تو نہیں

ہاتھ جاتے ہوئے جو ہلا کر گیا

شام آئی تو میرا ہی سایہ سلام

مختصر میرے قد کو بنا کر گیا