ہتھیلیوں میں ہے زمیں

ہتھیلیوں میں ہے زمیں

اب ان برگ ریزاں درختوں پہ

نوخیز کونپل نہیں کھل سکے گی

نہ ہی اوس زرتار پھولوں سے اب مل سکے گی

نہ ہی آسمانوں کی رنگت شہابی

نہ چھیڑا کسی نے رباب سحابی

ترستی سماعت میں

کوئی بھی آواز آتی نہیں آسماں سے

ہم اجسام آبی و خاکی بھی

جولان گاہ جہاں میں

تہی حس تحرک سے عاری

کہاں تک جئیں اب

کسی برگ وساز حیات آفریں کا

کہاں سے پتا لیں؟

مگر ہاں ،چلو کیسہ جاں سے

وحشت سے معمور لمحے نکالیں

ہتھیلی میں اپنی سمیٹیں زمیں

آسماں اپنے تن سے لگا لیں

سمندر کی کھینچیں طنابیں

قدم پانیوں پر دھریں

اجنبی سرزمینوں کے

سب دائرے پار کرلیں

پہاڑوں کی میخیں اکھیڑیں

سبک بار کرلیں زمیں

کہکشاوں میں

دنیا بسا لیں!